حج و عمرہ کا صحیح مختصر طریقہ:
( مناسک حج وعمرہ)
حج یا عمرہ کے لغوی معنی ہےکسی جگہ کا قصد کرنے اور اس کی طرف آنے کے ۔
حج یا عمرہ کے شرعی یا اصطلاحی معنی ہے خانہ کعبہ کا قصد کرنے اور اس کی طرف آنے کے ۔
فرق بس اتنا ہیں حج متعین و مخصوص دنوں میں کیا جاتا ہے اور عمرہ کیلئے کوئی وقت متعین نہیں ہے۔ ہر دن کیا جاسکتا ہے۔
- میقات پر احرام باندھنا :-میقات پر پہنچ کر غسل کرکے احرام باندھنا۔
- میقات کون کون سے ہیں :- 1) اہلِ مدینہ کیلئے " ذوالحلیفہ" جسے آجکل "ابیارعلی" کہا جاتا ہے۔اور یہ مدینہ منورہ سے 5 میل اور مکہ معظمہ سے 295 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ 2) اہلِ شام کیلئے " حُجفہ " جو "رابغ' کے قریب ہے اور مکہ معظمہ سے 150 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ 3) اہلِ نجد کیلئے "فرن المنازل" جسے آجکل "سیل " کہا جاتا ہے اور مکہ معظمہ سے تقریباً 50 میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ 4) اہلِ عراق کیلئے "ذات عِرق" جو "سیل" کے شمال کی طرف مکہ سے 77 میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ 5) اہلِ یمن کیلئے "یَلَملَم " جسے ان دنوں " سعدیہ " کہا جاتا ہے اور یہ مکہ معظمہ سے خشکی کے راستے سے 60 میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ جزیرہ کامران سے 380 میل دور ہے اور جدّہ سے 75 میل دور ہے۔ نوٹ :- بھارت ، پاکستان یا جنوبی ممالک کیلئے "یَلَملَم" میقات ہے۔اور جس شخص کی رہائش یا موجودگی میقات اور مکہ کے درمیان ہو تو اس کا میقات وہی جگہ ہیں جہاں پر وہ ہیں۔حتٰی کہ اہلِ مکہ کا میقات بھی ان کے گھر ہیں۔
- حج و عمرہ کی نیت کرنا :- احرام باندھنا سے ہی نیت ہو جاتی ہے۔
- تلبیہ :- صحیح تلبیہ یہ ہے " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ " ہر پل پڑھتے رہنا ہیں۔
- طواف القدوم(یا عمرہ) :- مکہ معظمہ پہنچ کر سب سے پہلے طواف القدوم کرنا۔
- استلام :- طواف القدوم کے شروع میں حجر اسود کا استلام کرنا۔
- رمل :- طواف کے سات (7) چکروں میں پہلے تین چکروں میں رمل کرنا (یعنی سینہ تان کر اکڑ کر چلنا)۔باقی چار چکروں میں معمولی چال سے چلنا۔
- مقامِ ابراہیم :- طواف کے بعد مقام ابراہیم پر آنا اور وہاں دو رکعت نماز پڑھنا۔پھر حجراسود کا استلام کرتے ہوئے صفا کی طرف روانہ ہونا۔
- صفا و مروہ :- صفا پر چڑھ کر قبلہ رُخ ہونا اور اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرنا تین مرتبہ اللّٰهُ اَکْبَرْ کہنا اور تین مرتبہ " لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ لَهٗ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَھُوَ علیٰ کُلِّ شَئٍ قَدِيْرٌ ، لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ ، أنْجَزَ وَعْدَهٗ وَ نَصَرَ عَبْدَهٗ وَهَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَهٗ. پھر مروہ پر جاکر بھی ایسے ہی دعا کرنا۔
- سعی :- صفا و مروہ کے درمیان سات (7) مرتبہ سعی کرنا (یعنی دوڈ کر چلنا)۔
- بین المیلین الاخضرین :- صفا و مروہ کے درمیان ( دو سبز کھمبوں کے درمیان کا فیصلہ). اتنا ہی کرنے سے مناسک عمرہ پورے ہوجاتے ہیں۔اس کے بعد اگر سر منڈوا لیا جائے یا سر کے بال کٹوالیے جائے تو احرام کی پابندی ختم ہو جاتی ہے۔
- حلق و تقصیر :- سر کا منڈوانا یا بال کتروانا۔حج یا عمرہ کا احرام کھولنے کیلئے حلق بھی کرایا جاسکتا ہے اور تقصیر بھی۔(عورتوں کیلئے خالی تقصیر جائز ہیں).
- احرام کھولنا پھر باندھنا :-عمرہ کا احرام کھولنا اور 8 ذی الحجہ کوحج کی نیت سے پھر سے احرام باندھنے والے کو متمتع کہا جاتا ہے۔
- حج کی نیت کرنا :- تین طریقوں سے حج کی نیت کی جاسکتی ہیں۔1) حجِ اِفراد (یعنی صرف حج کی نیت سے احرام باندھنا) 2) حجِ تمتع ( یعنی مناسک عمرہ پورا کرکے احرام کو 8 ذی الحجہ تک کھولنا پھر حج کیلئے واپس باندھنا) 3) حجِ قِران (یعنی مناسکِ عمرہ پورا کرکے سر کے بال نہ کاٹنا اور نہ منڈوانا اور نہ ہی اپنا احرامِ عمرہ کھولنا اور اُسی احرام میں حج کی نیت کرنا)۔
- مُفرِد :- ایسا شخص جو حجِ اِفراد کی نیت کرئے۔
- متمتع :- ایسا شخص جو حجِ تمتع کی نیت کرئے۔
- قارِن :- ایسا شخص جو حجِ قِران کی نیت کرئے ۔
- حجِ اِفراد :- صرف حج کی نیت پر احرام باندھنا کر حج کرنا۔
- حجِ تمتع :- دو دفعہ احرام باندھ کر الگ الگ عمرہ و حج کرنا عمرے کے احرام پر عمرہ کرنا اور حج کے احرام پر حج کرنا۔
- حجِ قِران :- ایک ہی دفعہ احرام باندھنا کر عمرہ اور حج کرنا۔
- ۸ ذی الحجہ (یوم الترویہ) :-مفرد اور قارن کو اپنے بندھے ہوئے احرام کے ساتھ اور متمتع کو نئے سرے سے احرام باندھ کر منٰی کی طرف روانہ ہونا۔
- منٰی :- منٰی میں پانچ نمازیں ادا کرنا۔یعنی ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر ۔8 اور 9 ذی الحجہ کی درمیانہ شب وہیں گزارنا۔
- ۹ ذی الحجہ (یومِ عرفہ) :- صبح سورج نکلنے کے بعد عرفات کیلئے روانہ ہونا۔عرفات پہنچ کر ظہر وعصر کی فرض نمازیں جمع کرکے پڑھنا اور امام کا ان سے پہلے خطبہ دینا۔
- عرفات :- میدانِ عرفات میں غروبِ آفتاب تک وہاں کھڑے ہوکر اللّٰه تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کرنا۔
- وقوفِ عرفہ :- ۹ ذی الحجہ کے دن وقتِ زوال سے لے کر غروبِ آفتاب تک عرفات میں ٹھہرنے کو وقوفِ عرفہ کہتے ہیں۔اور یہ فرض ہے۔
- مسجدِ نمرۃ(وادئ نمرۃ) :- میدانِ عرفات میں ایک بہت بڑے جامع مسجد کا نام ہے۔ جہاں پر امام خطبہ دے کر جمع نمازیں (ظہر اور عصر کی نمازیں) اکھٹے ایک اذان اوردو اقامتوں پر پڑھتا ہے۔
- وقوفِ مزدلفہ :- اُسی شام سورج غروب ہوجانے کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ کیلئے روانہ ہونا۔اور وہاں مغرب اور عشاء کی صرف فرض نمازیں جمع کرکے پڑھنا اور پوری رات گزارنا۔
- مشعرحرام :- مشعر حرام سے مراد مزدلفہ میں وہ جگہ ہے جہاں اب مسجدِ مشعرحرام بنی ہوئی ہے۔ اور آپ(ص) نے ۱۰ ذی الحجہ کی صبح فجر نماز کے بعد یہاں پر قبلہ رُخ ہوکر اللّٰه تعالیٰ کا ذکر اور کھڑے ہوکر دعائیں کی۔
- موقف :- یعنی عرفات میں جبلِ رحمت کے قریب وہ جگہ جہاں آپ(ص) نے وقوفِ عرفات فرمایا۔
- ۱۰ ذی الحجہ :- یعنی قربانی کا دن۔
- وادی مُحَسَّر (جہاں اصحابِ فیل ہلاک ہوئے تھے) :- ۱۰ ذی الحجہ کو صبح کی روشنی اچھی طرح پھیل جانے کے بعد مزدلفہ سے وادی محسر کے راستے منٰی کی روانہ ہونا ہے۔
- جمرۃ العقبہ (جمرہ کبریٰ) :- ۱۰ ذی الحجہ کو منٰی پہنچ کر جمرۃ العقبہ پر سات (7) چھوٹی چھوٹی کنکریاں پھینکنا۔
- رمی :-
- سات کنکریاں :-
- قربانی :- رمی کرنے کے بعد قربانی کی جگہ جاکر قربانی کرنا۔
- حلق و تقصیر :- قربانی کرنے بعد سر کے بال منڈوانا یا کتروانا۔
- طوافِ زیارت (طوافِ افاضہ) :- حلق و تقصیر کرنے کے بعد واپس مکہ معظمہ آکر طوافِ زیارت یا طوافِ افاضہ کرنا۔
- احرام کھولنا مگر چند پابندیاں برقرار :- طوافِ افاضہ کے بعد حجاج احرام کھول سکتے ہیں۔اور بہت ساری پابندیاں اب ختم ہو جاتی ہیں جیسے نہانا ، کپڑے بدلنا ، خوشبو لگانا وغیرہ۔ طوافِ افاضہ سے فارغ ہوکر پھر منٰی جانا اور وہاں۱۱, ۱۲ یا ۱۳ ذی الحجہ کی دوپہر تک قیام کرنا.اور ہر روز سورج ڈھل جانے کے وقت تینوں جمرات پر اللّٰهُ اَکْبَرْ کانعرہ کہکر سات سات کنکریاں پھینکنا۔
- ایامِ تشریق :- (۱۱ ، ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ کی تاریخ)
- ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ :- منٰی میں دوپہر تک قیام کرنے کے بعد واپس مکہ معظمہ آنا۔
- طوافِ وداع :- مکہ معظمہ پہنچ کر طوافِ وداع (الوداعی طواف) کرنا۔