نیا دُور ( جدید زمانہ)
جدید دُور ہے ایسا مظالم سے بھرا
چاروں اطراف ہیں یہاں ظالم کھڑا
مجرم خطا کرکے بھی باعزت رہا ہوتا ہے
اور ملزم کی سزا پاتا ہے ایک بے گناہ
گمراہی پھیلی ہوئی ہیں ہر نگر چاروں اور
قاتلوں اور فسادیوں سے بھرا ہے جدید دور
جہاں خاموشی درکار ہیں وہاں مچا ہیں شور
جہاں سلامتی درکار ہیں وہاں کھڑے ہیں چور
نہ عبادت کا شوق اور نہ ہی خوفِ خدا
مال و شہرت رہے سلامت بس یہی ہیں دعا
زن دَھن پہ فدا اور منِ نر زن پہ فدا
گردشِ وقت میں خونِ یکساں جدا جدا
لالچ سے پُر انسان کو اب کسی کی نہیں فکر
افلاسیوں کے بارے میں کوئی کرتا نہیں ذکر
مؤمنوں کی اس دنیا میں رہی ویسی نہیں قدر
بڑھے تو دور والدینوں سے بچے کررہے ہیں غدر
حکمران بھی بن بیٹھے ہےمطلب پرست وخود غرض
عوام کی تکلیفیں اختصار کرنا بھول گئے ہیں فرض
فقراء و مساکین کا نہ رہا اب ان کو کوئی خیال
اولاً مسرت و آسودہ رہیں ان کا اپنا اہل و عیال
دھوکا دہی کا سمّا بھی ہیں بہت گرم
چھپ گیا جیسے ہر کئی حیا ، ادب و شرم
مسجدیں اکثر اوقات اب رہنے لگی ہیں ویرانیں
امامت کا دعویٰ کرنے بیٹھے گھونگھے اور کانے
انسانیت نہ باقی رہی اب جدید انسانوں میں
فرق سارے مٹ گئے انسانوں اور حیوانوں میں
جس ملت کو اندھیروں سے حضور (ص) نے نکالا
آج ہم نے خود کو واپس ان اندھیروں میں دھکیلا
بیٹیاں ہماری اب بڑوں کی احترام نہیں کرتیں ہیں
راہوں میں بے پردہ تنہا گزرنیں سے نہیں ڈرتیں ہیں
دیکھ کے مغربی ماحول بس آہیں وہ بھرتیں ہیں
پہن کے نازک لباس بنا وجہ وہ گھومتے رہتے ہیں
لڑکوں کا بربادِ ماحول میں کچھ کم رول نہیں ہیں
معشوقہ کے تصورات کے بنا اور کوئی غم نہیں ہیں
کام کیلئےان کےاجسام بڑے کمزور و کاہل بنگئے ہیں
ناداں بے پرواہ ، آوارہ ، عاشق اور جاہل بنگئے ہیں
ذولفقار ایسا ماحول دیکھ کے ایسا دنگ رہ گیا ہے
تنہائی میں سونچتے سونچتے خود تنہا ہوگیا ہے
ہوکےدعاگو خدایا! دیکھا سیدھا راستہ ہم سب کو
پھیلا کے خوشبوِ بہشت بنا مؤمن بندے ہم سب کو
اے اللّٰه!ہر برائی سے محفوظ رکھ آسمان و زمین کو
عطا کر تحافظ سارے نیک صالحات و صالحین کو۔