جزبات
آج جذبات اُٹھے پھر سے، میرے دل میں کیسے
یہ جو پریشان لمحہ ٹھیرا ہے ، گزاروں کیسے
کوئی اظہار کرئے جزبات کو دل سے واسطہ کیسا
ہم نے جزبات کو روکا بہت ، مگردل پھسلا کیسے
رنگین محفلوں میں جانے سے اکثر باز رہے ہم
نہ جانے دل میرا اب کی بار وہاں پہنچا کیسے
دل کیوں محسوس کررہا ہے آج اچانک بڑی اداسی
شاید کوئی ٹوٹا ہوا لمحہ دل کو ستا رہا ہو جیسے
وقتِ غم سر پر ہو اور ساتھ میں گہری تنہائی
پرائے تو پرائے اپنے بھی لگتے ہیں پرائے جیسے
میں نہ تو کوئی شاعرہوں اور نہ ہی افسانہ نگار
تقدیری معاملہ ہے لازماً اس سے چھپاؤں کیسے
تقدیری معاملہ ہے لازماً اس سے چھپاؤں کیسے
رازِ جزبات بیان کرتا ہوں اپنی میں اس دورانِ غزل
ناداں ہوں جو دل کا معاملہ دل میں دفناوں کیسے
یہ قصّہِ جزبات عجیب نہیں ہے میری تنہائی کیلئے
جو ناآشنا اس حقیقت سے ہے انہیں سناؤں کیسے
یوں تو بیان کرتا ہے وہ اپنا رازِ دل کا سارا حال
ذولفقار جذباتی جو ٹھیرا اپنےدل کو سمجھائے کیسے